تحریر: مولانا محمد بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی|
تاریخچہ
منشورِ روحانیت امام خمینیؒ کی ایک نہایت اہم تقریر کا عنوان ہے۔ یہ تقریر امام خمینیؒ نے ایرانی کیلنڈر کے مطابق 13 اسفند 1367ھ ش بمطابق 3 فروری 1989ء کو ارشاد فرمائی—یعنی یہ ان کی طاغوت شکن، انقلابی زندگی کے آخری ایام میں کی گئی تقاریر میں سے ایک ہے۔
اس تقریر میں امام خمینیؒ کا خطاب عام لوگوں سے نہیں، بلکہ خواص اور حوزۂ علمیہ سے تھا۔ یہ وہ اہم ترین خطاب ہے جو امام نے علما اور دینی طلاب کے حوالے سے بنیادی امور بیان کرنے کے لیے کیا۔ یہی تقریر بعد میں منشورِ روحانیت کے نام سے مشہور ہوئی، کیونکہ امام نے اس میں صنفِ روحانیت کو نہ صرف جھنجھوڑا بلکہ ان کی آئندہ ذمہ داریوں، ان کے مقابل استعماری سازشوں، دلفریب نعروں، اور علما کو صرف منبر و محراب تک محدود رکھنے کی چالوں کو بھی پوری وضاحت کے ساتھ بے نقاب فرمایا۔
ہم اس مختصر مضمون میں اس منشور کے چند بنیادی نکات کو واضح کریں گے۔
مقام و عظمتِ علماء
امام خمینیؒ نے سب سے پہلے علما کو ان کی حقیقی حیثیت اور مقام سے آگاہ کیا۔
امامؒ فرماتے ہیں کہ روحانی طبقہ انبیا کا وارث ہے، لہٰذا اسے صرف مسجد و مدرسہ تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔
علما کو ہر طرح کے ظلم کے خلاف قیام کرنا چاہیے، معاشرتی اصلاح کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہنا چاہیے۔
سیاسی میدان میں پیش پیش
امام خمینیؒ نے منشورِ روحانیت میں علما کی تاریخی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ علما ہر دینی اور عوامی انقلاب میں ہمیشہ صفِ اوّل میں رہے ہیں۔ لہٰذا علماء کو چاہیے کہ وہ اس تاریخی روش کو جاری رکھتے ہوئے انقلابی تحریکوں کے علمبردار بنیں اور میدانِ سیاست میں فعّال کردار ادا کریں۔
امامؒ خمینی نے واضح کیا کہ دین سیاست سے جدا نہیں
روحانیت کو سیاست، حکومت اور عوامی مسائل میں وہی فعال کردار ادا کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں دین معاشرے کے تمام پہلوؤں میں زندہ اور نافذ العمل ہو—نہ کہ محض ایک نصابی کتاب تک محدود ہو۔
امام خمینیؒ علما کے اس تصور کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جس کے مطابق سیاست میں حصہ لینا علما کے شایانِ شان نہیں۔ وہ فرماتے ہیں:"سیاست اور علما کی جدائی کا نعرہ کوئی نئی بات نہیں؛ یہ نعرہ بنی امیہ کے دور میں اٹھایا گیا اور بنی عباس نے اسے مزید مضبوط کیا۔"
اسی طرح وہ بیان کرتے ہیں کہ استعمار نے بھی مختلف ممالک میں قدم جمانے کے بعد یہی بات پھیلائی کہ دین اور سیاست جدا ہیں، گویا سیاست صرف غیر دینی طبقے کا کام ہے۔
امامؒ فرماتے ہیں:"یہاں تک کہ بعض علما بھی اس کے قائل ہوگئے کہ عالمِ دین سیاست میں آئے گا تو نقصان اٹھائے گا—یہ استعمار کی بہت بڑی سازش تھی۔"(صحیفۂ امام، جلد 16)
اس نکتے سے واضح ہوتا ہے کہ اگر آج بھی کوئی عالم دین و سیاست کی جدائی کا قائل ہے، تو وہ شعوری یا لاشعوری طور پر استعماری فکر سے متاثر ہے۔
امام خمینیؒ مزید فرماتے ہیں: "ہمارے معاشرے میں سیاسی عالمِ دین گالی بن چکا ہے—یہ استعمار کی سازش ہے جس نے حتیٰ ہمیں بھی شک میں ڈال دیا تھا۔"
امامؒ کے بقول اگر امام جیسے انقلابی و بابصیرت ،دوراندیش شخص کو بھی یہ سازش لمحہ بھر کے لیے دھوکا دے سکتی ہے تو آج کے علما کو بھی چاہیے کہ شک اور تذبذب سے نکل کر سیاسی ذمہ داری کو دینی عبادت سمجھ کر ادا کریں۔
امام خمینیؒ کی تبعید اور علما کا سیاسی رویّہ
امامؒ کے قریبی ساتھی حجۃ الاسلام شیخ محمد علی شریفی بلتستانی نقل کرتے ہیں کہ شاہِ ایران نے امام خمینیؒ کو ترکی اور پھر عراق جلاوطن کرنے کے جو مقاصد رکھے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ اس زمانے میں عراق کے علما اور طلاب کے ہاں سیاست سے تعلق رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ شاہ کا خیال تھا کہ امام چونکہ سیاسی عالم ہیں لہٰذا نجف جیسے ماحول میں ان کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔
لیکن امامؒ نے اپنی بصیرت و شجاعت کے ساتھ حوزۂ نجف کو ایک بیدار اور متحرک حوزے میں بدل دیا۔
نجف میں مسجدِ شیخ انصاری میں خطاب کرتے ہوئے امامؒ فرماتے ہیں: "کئی برسوں سے علما اور طلاب کو یہ باور کرایا گیا کہ ہمیں سیاست سے کیا سروکار؟"(مھدویت در نظر امام خمینی، ص 147)
یہ جملہ اس وقت کے عمومی مزاج کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
امام خمینیؒ کی سیاسی جدوجہد کا آغاز
امام خمینیؒ کسی حادثے یا نعرے سے یکایک لیڈر نہیں بنے۔ ان کی پوری جوانی مسلمانوں کے اجتماعی مسائل پر غمِ گساری اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں گزری۔
سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط پر بھی وہ غمزدہ دکھائی دیتے ہیں۔
ابتدا میں وہ شاہ کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ صرف یہ چاہتے تھے کہ شاہ ایران کے قانونِ اساسی پر عمل کرے۔
آیت اللہ محمد یزدی کے بقول: "امام خمینی ابتدا میں محمد رضا شاہ سے لڑنا نہیں چاہتے تھے؛ صرف یہ کہتے تھے کہ شاہ کم از کم آئین پر عمل کرے۔"(خاطراتِ یزدی، ص 142)
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امامؒ کی جدوجہد کا آغاز قانون، عدل اور اخلاقی اصولوں کے تحفظ سے ہوا—جسے آج بھی ہر عالم دین کی بنیادی ذمہ داری ہونا چاہیے۔
علماء کس طرح کے سیاسی نظام میں حصہ لیں؟
یہ بہت اہم سوال ہے۔
قرآن، سنتِ اہلبیتؑ اور فقہا کی سیرت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شیعہ عالم کو ہر سیاسی نظام میں اپنے اصولی کردار کے ساتھ شرکت کرنی چاہیے۔
صحابہ و تابعین میں حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت حذیفہ یمانیؓ، حضرت عمار یاسرؓ اور علی بن یقطینؓ جیسے نمونے اس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے غیر معصوم حکمرانوں کے دور میں بھی عدل و انصاف کے لیے کردار ادا کیا۔
عصرِ جدید میں آیت اللہ شہید مدرس، آیت اللہ کاشانی، آیت اللہ شہید حسین فضل اللہؒ اور برصغیر میں شہیدِ رابع کی زندگیاں اس کی روشن مثالیں ہیں۔
امام خمینیؒ اور رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے بھی ان شخصیات کے کردار کو اُجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جنہوں نے بادشاہی نظام میں رہ کر بھی دینی اقدار کی پاسداری، بیرونی طاقتوں اور استعمار کی مداخلت کے خلاف جراتمندانہ کردار ادا کرتے ہوئے ظلم و ذیادتی کے خلاف ڈٹے رہے اور کبھی بھی ظالموں کے ظلم پر خاموش نہیں رہے۔
نتیجہ
اس مختصر مضمون سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ امام خمینیؒ کے نزدیک:
دین اور سیاست میں کوئی جدائی نہیں۔
دین و سیاست کی جدائی کا نعرہ بنی امیہ، بنی عباس اور استعمار کا نعرہ ہے۔
علمائے کرام کا سیاست سے دور رہنا استعماری منصوبے کی تکمیل ہے۔
کسی بھی معاشرے میں دینی اقدار اور ملکی آئین کی بالادستی، لاقانونیت کے خلاف جدوجہد، ظلم کی مخالفت اور مظلوموں کی حمایت—یہ سب ہر عالم دین کی شرعی ذمہ داری ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ عراق سے لبنان تک، بحرین سے نائجیریا تک، یمن سے پاکستان تک—ہر خطّے میں اپنی سیاسی و دینی ذمہ داری ادا کرنے والے تمام علماء کو خدا سلامتی اور کامیابی عطا فرمائے۔ آمین۔
حوالہ جات:
1. سید روح اللہ خمینی، منشور روحانیت، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، قم، چاپ 37، 1397۔
2. روح اللہ خمینی، صحیفۂ نور، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی۔
3. ابوالفضل ہدایتی، مہدویت در نظر امام خمینی، معاونت فرهنگی، 1394۔
4. محمد یزدی، خاطراتِ یزدی، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1380۔









آپ کا تبصرہ